24-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منٹو کے افسانے قسط 23
منٹو کے افسانے قسط 23
چھٹا منظر
(نگار ولا۔ ۔ ۔ ڈرائنگ روم۔ ۔ ۔ وسیع و عریض کمرہ جو پرانی وضع کے ساز و سامان سے آراستہ ہے۔ ہر چیز وزنی اور پائیدار ہے۔ ۔ ۔ دیواروں پر آئل پینٹنگز آویزاں ہیں۔ جو خاندان کے مختلف افراد کی ہیں۔ ایک پینٹنگ بیگم کی ہے جب کہ وہ جوان تھی۔ اس پینٹنگ کے نیچے بیگم ایک صوفے پر بیٹھی تقابل پیش کر رہی ہے۔ تصویر میں وہ بے فکر ہے مگر صوفے میں سخت فکرمند۔ اس کا چہرہ غم و اندوہ کا مجموعہ ہے کوئی رونی چیز بن رہی ہے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خیالات و افکار کے الجھے ہوئے دھاگے کبھی لپیٹتی ہے کبھی کھولتی ہے۔ ۔ ۔ اصغری داخل ہوتی ہے۔ ) بیگم :مجید میاں ملے ؟ اصغری :جی ہاں ! بیگم صاحب :کہاں تھے ؟ اصغری :باغیچے میں۔ بیگم صاحب :کیا کر رہے تھے ؟ اصغری :جی؟۔ ۔ ۔ (رک کر) اکیلے بیٹھے تھے۔ بیگم صاحب : (اصغری کی طرف دیکھ کر نگاہیں نیچی کر کے) آ رہے ہیں۔ اصغری : جی ہاں ! بیگم صاحب :تم جاؤ۔ (اصغری چلی جاتی ہے۔ ۔ ۔ مجید ا س کی طرف دیکھتا اندر داخل ہوتا ہے۔ ) مجید :کیا بات ہے !امی جان؟ بیگم صاحب :کچھ نہیں۔ ۔ ۔ بیٹھ جاؤ۔ مجید : (پاس ہی صوفے کی دوسری کرسی پر بیٹھ جاتا ہے) یہاں سردی ہے۔ بیگم صاحب :ہاں۔ ۔ ۔ یہاں سردی ہے۔ (وقفہ) مجید : (بے چینی محسوس کرتے ہوئے) میرا خیال ہے۔ ۔ ۔ آپ نے مجھے یہاں کچھ کہنے کے لئے بلایا ہے۔ بیگم صاحب :ہاں ! مجید :فرمائیے ؟ بیگم صاحب :میں تمہیں یہاں سے بھیجنا چاہتی ہوں۔ مجید :مجھے ؟(اٹھ کر) کہاں ؟ بیگم صاحب :بیٹھ جاؤ۔ مجید : (بیٹھ جاتا ہے) یہ لیجئے۔ بیگم صاحب :میں نے ابھی امجد سے بات نہیں کی۔ مجید : (پھر اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے) کون سی۔ بیگم صاحب :یہی تمہیں یہاں سے بھیجنے کی۔ مجید :لیکن آپ مجھے یہاں سے کیوں بھیج رہی ہیں۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کوئی خاص کام ہے یا۔ ۔ ۔ بیگم صاحب :بیٹھ جاؤ۔ مجید : (بیٹھ جاتا ہے) کوئی خاص کام ہے ؟ بیگم صاحب :نہیں۔ مجید :تو پھر مجھے یہاں سے کہیں باہر بھیجنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے۔ بیگم صاحب :کہ میں اسی میں بہتری سمجھتی ہوں۔ مجید :بہتری؟۔ ۔ ۔ کس کی بہتری؟ بیگم صاحب :ہم سب کی۔ ۔ ۔ اس گھرکی۔ مجید : (اٹھ کھڑا ہوتا ہے) آپ پہیلیوں میں بات کر رہی ہیں امی جان۔ بیگم صاحب :مجید تم میرے لڑکے ہو، میں تمہاری ماں ہوں۔ ۔ ۔ میرے تمہارے درمیان کوئی ایسی گفتگو نہیں ہونی چاہئے جواس مقدس رشتے پر ذرا سی بھی کالک لگائے۔ ۔ ۔ میں چاہتی ہوں کہ تم آج ہی کراچی چلے جاؤ اور جب تک میں کہوں وہیں رہو۔ مجید :لیکن امی جان۔ ۔ ۔ بیگم صاحب : (بات کاٹ کر) تمہارے وہاں بے شمار دوست موجود ہیں۔ ۔ ۔ مجھے یقین ہے، تم ان کی مدد سے، یا خود اپنی ہمت سے، اس منجدھار میں سے جسے زندگی کہتے ہیں اپنی کشتی صحیح و سلامت کنارے لے جاؤ گے۔ مجید : (کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا اور بیٹھ جاتا ہے) بہت بہتر۔ ۔ ۔ میں چلا جاؤں گا۔ بیگم صاحب :تمہارا فیصلہ۔ ۔ ۔ (ایک دم خاموش ہو جاتی ہے۔ ) (کمرے میں امجد اپاہجوں والی کرسی میں داخل ہوتا ہے جسے کریم چلا رہا ہے۔ ) امجد : (مجید سے)یار مجید، تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ۔ ۔ میں وہاں کمرے میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا تھا کہ تم آؤ گے توہم دونوں سعیدہ کی سالگرہ کے تحفے کے متعلق سوچیں گے۔ ۔ ۔ لیکن تم یہاں بیٹھے ہو(بیگم صاحب سے)امی جان۔ ۔ ۔ آپ نے کیا سوچا۔ ۔ ۔ کیسا تحفہ ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ میں تو سوچ سوچ کر پاگل ہو گیا ہوں۔ بیگم صاحب :تم سعیدہ سے کیوں نہیں پوچھتے۔ امجد :لو اور سنو(ہنستا ہے) حد کر دی آپ نے امی جان۔ ۔ ۔ اس سے مشورہ لیا تو تحفے کا مزا کیا خاک آئے گا(مجید سے) کیوں مجید؟ (مجید خاموش رہتا ہے۔ ) امجد :بولو یار۔ مجید : (اٹھ کر) آپ امی جان سے پوچھئے۔ ۔ ۔ میں تو جا رہا ہوں۔ امجد : (حیرت سے) جا رہے ہو؟۔ ۔ ۔ کہاں جا رہے ہو؟ مجید :کراچی! امجد :یقیناً تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ کیا کرنے جا رہے ہو کراچی؟ مجید :کیا کرنے جا رہا ہوں، (پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ) منجدھار میں سے اپنی کشتی نکالنے۔ امجد : (بیگم سے) کیا ہو گیا ہے اسے (مجید سے) بیٹھو یار۔ ۔ ۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ ۔ ۔ ابھی ابھی فیصلہ ہو جانا چاہئے۔ مجید :فیصلہ تو ہو چکا ہے۔ امجد :کیا؟ مجید :کہ میں کراچی جا رہا ہوں اور پھر کبھی واپس نہیں آؤں گا۔ امجد :کیا بکتے ہو(بیگم سے) امی جان، یہ قصہ کیا ہے ؟ بیگم صاحب :کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ماں بیٹے میں لڑائی ہو گئی کسی بات پر۔ امجد :کس بات پر؟ بیگم صاحب :تم نہیں پوچھ سکتے۔ امجد :عدول حکمی تو ہوتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن مجید میرا بھائی ہے۔ ۔ ۔ آپ کے اور اس کے درمیان اگر کوئی رنجش یا غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے تو اسے دور کرنا میرا فرض ہے۔ ۔ ۔ مجید کو میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ ۔ ۔ اس سے ایسی کوئی غلطی سر زد نہیں ہو سکتی۔ جو آزار کا موجب ہو۔ ۔ ۔ (مجید سے) ادھر آؤ مجید۔ مجید :بھائی جان، مجھے اپنا اسباب بندھوانا ہے۔ امجد :لاحول ولا۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے۔ ۔ ۔ (بیگم سے) امی جان۔ ۔ ۔ خدا کے لئے اسے روکئے۔ ۔ ۔ میرے لئے نہیں تو سعیدہ کے لئے روکیے۔ ۔ ۔ اس گھر میں ایک صرف یہی ہے جس نے ابھی تک اسے اداس نہیں ہونے دیا۔ ۔ ۔ میری خاطر اتنی زحمت برداشت کرتا ہے۔ ۔ ۔ اگر آپ نے اسے جانے دیا تو امی جان، میں نہیں جانتا، میرا کیا حال ہو گا۔ ۔ ۔ سعیدہ کو سیر کے لئے لے جاتا ہے تومیں تصور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے بدلے میں اس کے ہمراہ ہوں۔ اس کے ساتھ کوئی کھیل کھیلتا ہے تو وہ خلا بہت حد تک پورا ہو جاتا ہے جو قدرت کے بے رحم ہاتھوں نے میری زندگی میں پیدا کر رکھا ہے۔ ۔ ۔ میں تو کئی بار سوچتا ہوں امجد، اگر تیرا بھائی مجید نہ ہوتا تو کیا تیری شکستہ زندگی کا ملبہ تو اس قابل نہیں تھا کہ گھوڑے پر پڑا ہوتا۔ ۔ ۔ امی جان اسے روکئے۔ ۔ ۔ یہ تو میرا بازو ہے۔ ۔ ۔ کیوں آپ اس کو مجھ سے جدا کر رہی ہیں۔ ۔ ۔ اللہ میاں کی جگہ نہ لیجئے امی جان۔ (رونے لگتا ہے۔ ) مجید :میں جا رہا ہوں امی جان۔ بیگم صاحب :ٹھہرو! مجید : (رک جاتا ہے۔ ) بیگم صاحب : (اٹھتی ہے اور امجد کے سرپر ہاتھ پھیرتی ہے) امجد بیٹا۔ ۔ ۔ روؤ نہیں جان مادر۔ ۔ ۔ مجید نہیں جائے گا۔ ۔ ۔ جو چیز جہاں ہے وہیں رہے گی۔ ۔ ۔ اس لئے کہ اسے یہی منظور ہے۔ ۔ ۔ (مجید سے) مجید۔ ۔ ۔ بھائی کے پاس بیٹھو اور سعیدہ کی سالگرہ کے متعلق سوچو۔ (چلی جاتی ہے۔ ) (مجید کچھ دیر سوچتا ہے۔ پھر امجد کی کرسی کی طرف بڑھتا ہے۔ ) مجید : (آہستہ) بھائی جان، آپ مجھے جانے دیں۔ امجد : (جھکا ہوا سر اٹھا کر) جانے دوں ؟۔ ۔ ۔ کہاں جانے دوں ؟۔ ۔ ۔ پاگل مت بنو۔ مجید :آپ نہیں سمجھتے بھائی جان۔ امجد :میں سب سمجھتا ہوں۔ ۔ ۔ اپنا رومال نکالو اور ذرا میرے یہ آنسو پونچھ دو۔ مجید : (تھوڑے توقف کے بعد اپنا رومال نکالتا ہے اور امجد کے آنسو پونچھتا ہے۔ ۔ ۔ جلدی جلدی) امجد :کیا کرتے ہو یار۔ ۔ ۔ تمہیں تو آنسو پونچھنا بھی نہیں آتا۔ ۔ ۔ (مسکراتا ہے)اتنا معمولی سا کام ہے۔ مجید :یہ معمولی کام نہیں بھائی جان۔ امجد : (مسکرا کر) اچھا بھائی بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ۔ ۔ آؤ ادھر بیٹھو۔ ۔ ۔ سعیدہ کی سالگرہ کے تحفے کے متعلق سوچیں۔ بیٹھو۔ مجید : (امجد کے پاس کرسی پر بیٹھ جاتا ہے) سوچئے۔ امجد : (آہ بھرکر) سوچتے ہیں بھائی سوچتے ہیں۔ ۔ ۔ سوچنے کے علاوہ اب اور کام ہی کیا ہے۔ لیکن ذرا تم بھی سوچو۔ (مجید اور امجد دونوں سوچ میں مستغرق ہو جاتے ہیں) ۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔